رواداری کوئی انفعالی رویہ نہیں‘ وہ عین حقیقت پسندی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ آدمی کیلئے زیادہ بہتر چوائس لینے کا موقع تھا
مولانا وحیدالدین خاں
جب بھی زیادہ لوگ ساتھ مل کر زندگی گزاریں گے تو ان کے درمیان شکایت اور اختلاف کے واقعات بھی ضرور پیدا ہوں گے۔ ایسا ایک گھرکے اندر ہوگا۔ سماج کے اندر ہوگا‘ پورے ملک میں ہوگا اور اسی طرح بین الاقوامی زندگی میں بھی ہوگا۔ انسان خواہ جس سطح پر بھی ایک دوسرے سے ملیں اور تعلقات قائم کریں ان کے درمیان ناخوشگوار واقعات کا پیش آنا بالکل لازمی ہے۔
ایسی حالت میں کیا کیا جائے ’’رواداری‘ برداشت‘‘ اسی سوال کا جواب ہے۔ ایسی حالت میں ایک شخص دوسرے کے ساتھ اور ایک گروہ دوسرے گروہ کے ساتھ رواداری اور برداشت کامعاملہ کرے۔ مل جل کر زندگی گزارنے اور مل جل کر ترقی کرنے کی یہی واحد قابل عمل صورت ہے۔ اسی اسپرٹ کے بغیر انسانی تمدن کی تعمیر اور اس کی ترقی ممکن نہیں۔ رواداری کوئی انفعالی رویہ نہیں‘ وہ عین حقیقت پسندی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ آدمی کیلئے زیادہ بہتر چوائس لینے کا موقع تھا اور اس نےپست ہمتی کی بنا پر ایک کمتر چوائس کو اختیار کرلیا۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ دنیا میں اس کے سوا کوئی اور چوائس ہمارے لیے ممکن ہی نہیں۔ رواداری‘ برداشت ہماری ایک عمل ضرورت ہے نہ کہ کسی قسم کی اخلاقی کمزوری۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی ایک صورت حال کو اپنے لیے ناخوشگوار پاکر اس سے لڑنے لگتا ہے اور بالآخر تباہی سے دوچار ہوتا ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ آدمی نے اپنی کوتاہ نظری کی بنا پر یہ سمجھا کہ اس کیلئے انتخاب خوشگوار اور ناخوشگوار کے درمیان ہے۔ وہ ناخوشگوار سے لڑگیا تاکہ خوشگوار کو حاصل کرسکے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں